Orhan

Add To collaction

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر 

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر 
 از قلم ایف اے کے
قسط نمبر8

"وہ اسکی محبت سے پتا نہیں کیوں خوف کھاتی تھی۔۔۔وہ اچھا خاصا ہینڈسم تھا اور ایک دو  لڑکیوں کا تو زاھراء کو بھی پتا تھا جو اس پر کرش رکھتی تھی۔۔۔وہ اکثر اس کے ڈیپارٹمنٹ میں پایا جاتا تھا ۔۔وہ آج صبح یونیورسٹی آئی تو کنزہ نہیں آئی ہوئی تھی ۔اسکا موڈ ایک دم آف ہوا تھا۔ 
 "وہ ابھی کینٹین میں گئی ہی تھی کہ یونیورسٹی کے عجیب ترین انسان سے اس کا سامنا ہوا تھا۔۔
 "آج اکیلی آئی ہیں کیا ۔۔جمشید اسکو دیکھتا بولا تھا وہ خاموشی سے آکر بیٹھ گئی تھی 
 "ارے اتنا غصہ۔۔۔دیکھو تو ایسا بھی کیا پوچھ لیا آپ سے زاھراء جی۔۔وہ عامیانہ لہجے میں بولا تھا۔ 
 "وہ خاموشی سے ادھر اُدھر دیکھنے میں مصروف تھی جیسے کہہ رہی ہو ۔۔کرتے رہو بکواس میری بلا سے۔۔۔
 "وہ اسکے سامنے موجود کرسی پر آکر بیٹھا تھا۔۔۔"پتا ہے کیا زاھراء جی کہ وہ ابھی اور بھی کچھ کہتا کہ رضا نے درمیاں میں موجود ٹیبل سے زاھراء کا بیگ اٹھاتے ازاھرء سے کہا تھا
۔"اٹھ جائے ہال میں چلتے  ہیں ۔۔۔اس نے جمشید کو بلکل نظرانداز کردیا تھا جیسے وہ وہاں ہو ہی نہیں۔۔۔۔
 "وہ ایک دم اٹھی تھی وہ نہ پہلے کچھ بولی تھی اور نہ اب۔۔۔ 
"او ہیلو نظر نہیں آرہا ہم بات کررہے ہیں۔۔۔۔۔جمشید نے غصے سے کہا تھا
 "آجائے ۔۔۔وہ اس بار سختی سے بولا تھا زاھراء نے ایک دم قدم آگے بڑھائے تھے۔۔۔
 "بھرم کس کو دیکھا رہا ہے تو۔۔۔جمشید نے ایک دم اٹھتے رضا کا راستہ روکا تھا۔۔ 
 "میں بات نہیں بڑھانا چاہتا ۔۔اس لئے آرام سے جانے دو ۔۔۔۔رضا نے اسے غصے سے گھورتے کہا تھا۔ 
 "تو نے ہی بات بڑھائی ہے میں نہیں لگا تیرے منہ تو ویسے ہی پنگے لے رہا ہے۔۔وہ خاموشی سے پیچھے کھڑی تھی۔  "رضا نے پیچھے ہٹتے زاھراء کو چلنے کا کہا تھا 
"کیا ہوا اب ڈر کیوں رہا ہے۔بس ہیرو بن لیا ۔۔بہن لگتی ہے کیا تیری جو اتنا درد ہورہا تھا۔۔ 
 "رضا ایک دم رکا تھا۔وہ اسکی طرف مڑا تھا کہ زاھراء نے اسے روکا " پاگل ہو تم اگنور کرو۔۔
"او اب تو بہن نے بھی منع کردیا ہے ۔۔جمشید نے ایک دم قہقہا لگایا تھا 
 "ایک اور لفظ مت کہنا تیری بکواس سننے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔میں آرام سے جارہا ہوں یہاں سے ۔تجھے ڈرامے کرنے کا شوق ہے تو کئی اور ٹرائے کرلو۔۔
کینٹین میں آس پاس اب بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے تھے۔۔۔ 
 "میں نے بلایا تھا تجھے نہیں ناں وہ تو تم اپنی ****** جمشید نے گالی دیتے کہا تھا۔۔۔"رضا نے ایک دم اس کے منہ پر مکا مارا تھا وہ لڑکھڑایا تھا پھر سبھلتے اسنے رضا کو مکا مارا تھا۔۔وہ ابھی ایک دوسرے سے الجھتے کے احد نے ایک دم رضا کو روکا تھا وہ دوڑتا ہوا آیا تھا شاید اسے کسی نے لڑائی کا بتایا تھا۔
۔"بس کرو رضا چلو یہاں سے احد نے نیچے سے زاھراء کا بیگ اٹھاتے کہا تھا۔۔۔وہ ابھی تک خاموشی سے کھڑی تھی۔۔ 
"ہاں لے جاٶ *****دماغ خراب ہوگیا ہے اسکا۔۔۔جمشید اب بھی اونچا اونچا بکواس کررہا تھا۔۔
 "احد اسے گھیسٹتا وہاں سے نکال لایا تھا۔۔زاھراء آرام سے چلتی ساتھ آئی تھی۔۔
۔"تیرا دماغ خراب ہے تو کیوں الجھ رہا تھا اس سے ۔۔جانتا نہیں ہے اسکو ۔۔کئی بھی پنگا لے لیتا ہے بےوقوف کئی کا۔۔احد اس پر چیخ رہا تھا۔ 
 "آئی ایم سوری زاھراء آپ کو بھی یہ سب برداشت کرنا پڑا ۔۔احد ایک دم اس سے معذرت کرتا بولا تھا۔
 "زاھراء اسکو گھورتی احد کے ہاتھ سے اپنا بیگ لیتی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔ 
 "کیا ہوگیا ہے رضا یہ کیا حرکت تھی اب جمشید پتا نہیں کیا کرئے گا۔۔۔احد پریشانی سے بولا تھا۔
 "وہ زاھراء کو تنگ کررہا تھا اور میں کم ازکم یہ برداشت نہیں کرسکتا ۔۔۔وہ بےبسی سے بولا تھا
۔"ہاں تو تماشا لگاسکتا ہے اسکا وہ برداشت ہے تجھے چلو اب یہاں سے گھر چلتے ہیں۔۔۔
 "گھر نہیں جانا ابھی وہ خفا ہوکر گئی ہے مجھ سے مجھے  بات کرنی ہے اس سے۔۔۔رضا ایک دم کہتا وہاں سے چلا گیا تھا جب کہ احد حیرت سے اس کی پشت کو دیکھ رہا تھا۔  
                     ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
 "ایم سوری۔۔۔وہ کب سے اسے ڈھونڈ رہا تھا اور وہ  پرزنٹیشن روم میں اکیلی بیٹھی تھی جو بالکل خالی تھا۔۔وہ اسکی آواز پر ایک دم چونکی تھی۔۔۔
 "تم ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیئے تھا اسکا کام ہی بکواس کرنا ہے لیکن تم بھی اس سے الجھ گئے ۔۔۔
 "مجھے سچ میں اسے اگنور کرنا چاہیئے تھا لیکن بس ہوگیا مجھ سے سوری ۔۔۔۔۔۔
 "مجھے سمجھ نہیں آئی تمہیں مسلئہ کیا ہو رہا تھا وہ ایک عرصہ سے یہی کچھ کررہا ہے پھر بھی تم بےوقوقوں کی طرح اس سے لڑپڑے۔۔۔وہ کافی غصہ میں تھی۔ 
 "وہ آپ کو تنگ کررہا تھا میں کیا خاموشی سے کھڑا دیکھتا رہتا۔۔۔وہ بھی غصے سے بولا تھا
 "وہ میرا مسلئہ تھا تمہارا نہیں۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی بولی تھی۔۔ 
 "آپ کو اب بھی لگتا ہے وہ میرا مسلئہ نہیں تھا وہ بھی اسکی آنکھوں میں برائے راست دیکھتا بولا تھا۔
 "کیوں تھا وہ تمہارا مسلئہ کیا لگتی ہوں میں تمہاری جو تمہیں غصہ آرہا تھا۔۔۔
 "وہ اسکی بات سن کر ہلکے سے مسکرایا تھا باز دفعہ مسکراہٹوں کی عمر کتنی چھوٹی ہوتی ہے ناں 
 "آپ ابھی بہت غصے میں ہیں ہم بعد میں بات کرتے وہ اٹھتا ہوا بولا تھا
 "مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔۔۔وہ ایک دم رخ موڑتے بولی تھی۔۔۔ 
 "رضا کی تو جان پر بن گئی تھی وہ کیسے اسے خود سے بدگمان رہنے دیتا ۔۔ 
 "میں سوری تو بول رہا ہوں ناں اور آپ کیا چاہتی ہیں اس جمشید سے بھی جاکر سوری کرآوں۔۔ 
 "مجھے کسی سوری کی ضرورت نہیں ہے ۔بس تم میرے معملات سے دور رہو تم ۔میں خود ہینڈل کرسکتی ہوں وہ ایک دم چیخی تھی
 "میں نہیں رہ سکتا دور۔۔۔ وہ بھی غصے سے بولا تھا اسکا لہجہ اسے مار رہا تھا
 "کیوں نہیں رہ سکتے تم دور ۔۔۔!"۔۔۔"محبت کرتا ہوں میں آپ سے ۔تب سے جب آپ کو پہلی بار دیکھا تھا۔۔وہ بھی ایک دم چیخا تھا وہ ساکت ہوگئی تھی
۔"چند سیکنڈ ان کے درمیان خاموشی رہی تھی۔۔پھر اس خاموشی کو زاھراء نے توڑا تھا۔ 
 "محبت ۔۔۔!وہ تمسخرانہ ہنسی ہسی تھی کون سی محبت جو ہر کسی کو ہر دوسرے دن ہو جاتی ۔۔پھر دل بھر جاتے ہیں تو نئی محبت کرلیتے لوگ۔۔وہ طنزیہ لہجے میں بولی تھی۔
 "آپ توہین کررہی ہیں میری محبت کی۔۔وہ ایک دم بے بس ہوا تھا۔۔۔ 
 " میں تمییں حقیقت بتا رہی ہوں۔۔۔۔ناولز اور ڈراموں سے نکل آٶ ۔یہ محبت شہبت کچھ نہیں ہوتی۔۔مت برباد کرو خود کو ۔۔۔۔
 "برباد تو میں ہوچکا ہوں۔۔۔پلیز زاھراء ایسا مت کرو تم چاہتی ہو تو میں جمشید سے ابھی جاکر معافی مانگ لیتا لیکن یہ سب مت کہو۔۔۔وہ آنسو ضبط کرتا بولا تھا۔
 " تمہیں ابھی میری باتیں بری لگ رہی ہونی لیکن تم چار پانچ سال بعد اپنی اس محبت پر ہنسا کرو گے ۔۔وہ بے تاثر لہجے میں بولی تھی 
 "میں یہاں پڑھنے آتی ہوں محبت محبت کھیلنے نہیں تم اگر مجھ سے دس بار بھی یہ کہو گے کہ تمہیں محبت ہے تو  دس بار بھی میرا جواب وہی ہونا جو آج تھا۔۔میں ان  چکروں میں پڑنا ہی نہیں چاہتی ۔۔محبت میرے بس کی بات نہیں۔۔۔۔وہ ایک دم کہتی وہاں سے نکل گئی تھی۔
 "وہ ابھی تک حیران کھڑا تھا۔۔ایک عجیب سی خاموشی اس کے آس پاس پھیل گئی تھی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا تھا ۔وہ ایک دم گرنے والے انداز میں بیٹھا تھا۔آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے روا تھے۔                    
        "انکار ٹھیک تھا  لیکن۔●      
        "اسکا لہجہ سنا تھا کیسا تھا۔۔۔" 
"۔۔ایسا نہیں ہوسکتا وہ ایسے کیسے بول سکتی وہ خود کلامی کرتا بولا تھا ۔۔وہ ایسے لٹے ہوئے مسافر کی طرح لگتا تھا جس کا سب کچھ اس سے چھین لیا گیا ہو۔۔
 "رضا کیا ہوا ہے تو ایسے کیوں بیٹھا ہے احد ایک دم اس کی طرف آیا تھا۔۔ 
 "احد۔۔ وہ کہتی کہ میں اپنی محبت پر خود ہنسا کروں گا وہ ٹکرا کر چلی گئی یار ۔۔۔مجھے کہتی محبت کچھ نہیں ہوتی ۔۔وہ مجھے موقع تو دیتی یار میں بتاتا اسکو محبت کیا ہوتی ہے ۔۔وہ ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا
 "احد میں کیسے یقین دلاوں گا اسکو وہ مجھے کیا سمجھ رہی ہے یار تو اسکو بتا سکتا ہے ہاں کہ میں اسے دھوکا نہیں دے سکتا ۔۔ایک محبت کے بعد دوسری محبت نہیں کی جاتی ۔یا تو پہلی محبت ۔محبت نہیں تھی یا پھر دوسری محبت ۔محبت نہیں ہے۔بہلاوا ہے۔وہ کھوئے انداز میں بول رہا تھا 
 "احد کو اس کی حالت پر ترس آرہا تھا اور زاھراء پر غصہ ۔   
                               ♡♡♡♡♡♡♡♡
 "کیسا ہے۔۔۔اسکے فون اٹھاتے ہی احد نے پوچھا تھا۔۔۔
 "کیسا ہوسکتا ہوں۔۔۔۔"اسکے لہجے میں نمی نمایا تھی۔
 "چل آجا کہیں باہر چل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔"مجھے کئی نہیں جانا یار ۔۔وہ بیزاری سے بولا تھا۔
 "چپ کرکے آ میں نے بولا ناں ہم جارہے ہیں تو بس جارہے ہیں۔۔۔چل جلدی آ مجھے بھی پیک کر لینا۔۔ 
 "اوکے رکھ آتا ہوں۔۔۔۔اسنے موبائل جیب میں ڈالا تھا پھر منہ پر پانی کے دو تین چھینٹے مارے تھے۔۔۔آج سے پہلے اسے زندگی اتنی بدنما کبھی نہیں لگی تھی وہ گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکل آیا تھا
 "وہ ابھی تھوڑا ہی آگے گیا تھا کہ اسکے آگے ایک گاڑی اس طرح رکی تھی کہ اسے فوراً بریک لگانی پڑی تھی۔
 "وہ ابھی سنبھلا بھی نہیں کہ اس نے جمشید کو اپنی طرف آتا دیکھا تھا وہ پچھلے سات آٹھ گھنٹوں سے اسکے ساتھ ہونے والی لڑائی بلکل بھول چکا تھا 
۔۔"ہاں جی رضا صاحب سوچا تو آپ نے نہیں ہوگا کہ میں آپ ک کبھی ایسے بھی مل سکتا ہوں۔۔وہ طنزيہ مسکرایا تھا۔
 "رضا ایک دم باہر نکلا تھا ۔۔کیا چاہتے ہو ۔۔۔وہ دوٹوک بولا تھا۔ 
 "حوصلہ میرے ہیرو بتا دیتا ہوں اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔۔
 "مجھے جلدی ہی ہے۔۔۔وہ بے خوفی سے اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔ 
"تمہیں اسکے سامنے میری بے عزتی نہیں کرنی چاہیئے تھی اچھی لگتے ہیں وہ مجھے ۔اس وقت سے میرا خون کھول رہا تھا۔۔ اسکو گھورتا بولا تھا۔۔۔ 
 "میں تمہاری زبان کھینچ لوں گا جمشید۔۔۔وہ ایک دم دھاڑا تھا 
 "تجھے اتنا درد کیوں ہوتا ہے اسکا ۔۔وہ غصے سے بولا تھا۔۔۔ 
"ہاں ہوتا ہے مجھے درد محبت ہے وہ میری۔اور اسکی طرف اٹھتی ہر نگاہ کو فنا کردوں گا میں وہ جنونی ہورہا تھا۔۔۔ 
 "ہاہاہاہاہا۔۔۔۔جمشید نے ایک دم قہقہ گایا تھا پھر اسے گھورتا بولا تھا۔ 
"تجھے پتا ہے میں کیا کرسکتا ہوں تیرے ساتھ ۔۔۔ابھی ختم کردوں تجھے تو لاش بھی دس دن بعد ملنی تیرے گھر والوں کو۔۔۔۔ 
 "تجھ جیسوں کو اور کچھ زیب بھی نہیں دیتا لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے علاوہ تجھے آتا کیا ہے بیغرت۔۔رضا سخت  لہجے میں بولا تھا ۔
 "تیری تو ***** جمشید نے اسے زور کا دھکا دیا تھا وہ ایک دم پیچھے ہوتے گرا تھا وہ ابھی سنبھلا بھی نہیں تھا کہ فضا میں فائر کی آواز گونجی تھی۔۔۔اور اسنے آنکھیں بند کرنے سے پہلے پولیس کی گاڑی کی آواز سنی تھی ۔اور آس پاس لوگوں کی آواز بھی آرہی تھی اور  اس نے آخری  بار جو چہرہ ذہین کے پردے پر ابھرتا دیکھا تھا وہ زاھراء کا تھا وہ تکلیف میں بھی ہلکا سا مسکرایا تھا۔۔    
     ● :جسم کی دراڑوں سے روح نظر آنے لگی 
             بہت اندر تک توڑ گیا مجھے عشقِ تیرا●
                            ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡ 
"رضا ۔۔۔۔اسے آواز بہت دور سے آتی لگی تھی دھیمی سی ۔بے چین سی اسنے تاریخی کو چیرتے آواز کی سمت دیکھنا چاہا تھا ۔۔۔اسکو اپنے جسم میں شدید درد محسوس ہوا تھا وہ پھر سے آنکھیں بند کرنا چاہتا تھا کہ آواز پھر سے آئی تھی۔۔۔ 
 " آنکھیں کھول یار ۔۔۔۔احد اس پر جھکا بول رہاتھا
"اسے چند منٹ لگے تھے اسے پہچانے میں۔وہ خالی خالی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا تھا۔
۔مجھے معاف کردینا یار نہ میں ضد کرتا نہ تو آج اس حال میں ہوتا۔۔۔ 
"رضا نے نفی میں سر ہلایا جیسے کہنا چاہتا ہو بکواس نہ کر۔۔ 
 "چل تو آرام کر میں انکل کو کال کردوں وہ ابھی گھر گئے ہیں ۔۔۔وہ ایک دم کہتا پلٹنے لگا تھا کہ رضا نے اسے آواز دی تھی۔۔۔
 "زاھراء کہاں ہے ۔۔۔۔وہ اسے بغور دیکھتے بولا تھا۔
 "اسکا فون بند ہے ۔۔۔وہ بے زاری سے بولا تھا۔"کنزہ سے پوچھ لے ۔۔اس کی سوئی ابھی تک زاھراء میں ہی اٹکی تھی۔ 
 "پوچھتا ہوں یار تو آرام کر ۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا باہر نکل گیا تھا  
                      ♡♡♡♡♡♡♡♡♡♡
 "جب مجھے پتا چلا کے رضا کو گولی لگی ہے اور ماری بھی جمشید نے ہے ۔میرا دل کیا میں کچھ کرلوں خود کو میں رضا کا سامنا نہیں کرسکتی تھی ایک تو اسی دن اس کو پتا نہیں کیا کیا بول دیا اور پھر جو کچھ ہوا۔۔۔مجھے احد کی کال آئی تھی میں اٹھا ہی نہیں سکتی تھی۔۔
 "اور تم اس شرمندگی میں لندن چلی گئی ۔۔۔
 "ہاں ۔۔۔لیکن ایک ہفتے بعد۔۔وہ سر جھکائے بولی تھی۔۔۔
 " کنزہ نے اسے شدید گھوری سے نوازا تھا۔۔۔اور ایک ہفتہ تم کہا تھی۔۔
 "کراچی اپنی آنٹی کے گھر جب رضا گھر وآپس گیا تھا تب میں لندن گئی تھی۔۔
 "اف زاھراء یہ کیا کرلیا تم نے اپنے ساتھ۔۔۔۔!"
 "لڑکیوں مانے کہ تم لوگ کافی عرصے بعد ملی ہو لیکن ٹائم دیکھا ہے تم نے ۔۔۔۔احد ایک دم ٹپکا تھا۔
۔"ہاں یار سچ میں بہت دیر ہوگئی ہے چلو زاھراء پھر ملتے ہیں ۔۔۔انشااللہ وہ اس سے ملتی بولی تھی۔اور باہر نکل گئی تھی ۔۔۔ 
 "اب آپ بھی اٹھ جاٶ ۔۔احد نے اسے ابھی تک بیٹھے دیکھتے گھورا تھا۔ 
 "وہ خاموشی سے اٹھ گئی تھی۔۔۔! 
          ■"منا رہا ہوں ترے بعد ____برسیاں اپنی    
           کہ جی لیا تھا ترے ساتھ جتنا جینا تھا■

   1
0 Comments